Monday, April 17, 2023

The Camel and her son kids story اُونٹ اور اس کا بچہ


 

اُونٹ اور اس کا بچہ

ایک دن ایک اونٹ اور اس کا بچہ گپ شپ کر رہے تھے۔ بچے نے پوچھا، "ماں، ہمارے کوہان کیوں ہیں؟" ماں نے جواب دیا، ’’ہمارے کوہان پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ہیں تاکہ ہم صحرا میں زندہ رہ سکیں‘‘۔

"اوہ"، بچے نے کہا، "اور ہمارے پاؤں گول کیوں ہیں ماں؟" "کیونکہ ان کا مقصد صحرا میں آرام سے چلنے میں ہماری مدد کرنا ہے۔ یہ ٹانگیں ریت میں گھومنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔

"ٹھیک ہے۔ لیکن ہماری پلکیں اتنی لمبی کیوں ہیں؟" اپنی آنکھوں کو صحرا کی دھول اور ریت سے بچانے کے لیے۔ یہ آنکھوں کے لیے حفاظتی غلاف ہیں"، اونٹ کی ماں نے جواب دیا۔

اونٹ کے بچے نے کچھ دیر سوچا اور کہا، "لہٰذا ہمارے پاس صحرائی سفر کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوہان، صحرا کی ریت میں چلنے کے وقت ہمیں آرام دہ رکھنے کے لیے گول کھر، اور صحرائی طوفان کے دوران ریت اور گردوغبار سے بچانے کے لیے لمبی پلکیں ہیں۔ . پھر ہم چڑیا گھر میں کیا کر رہے ہیں؟

ماں ہکا بکا رہ گئی

اخلاق

اگر آپ صحیح جگہ پر نہیں ہیں تو آپ کی طاقتیں، مہارتیں اور علم بیکار ہیں۔

................................................................................................................................................................


 Once upon a time, there lived a baby camel with her mother. One fine day as they were lying on the ground, the baby camel was deep in her thoughts. When the mother camel asked what was wrong with her, the baby camel did not answer her. You may also like to read, How The Camel Got His Hump.

The next day, when the baby camel could not resist anymore, she asked, “Why do the camels have humps?” The mother smiled and said, “Well, as we are desert animals, the humps help us to store water for many days and because of this, we can survive without water”.

animal moral story Image Source @www.bedtimeshortstories.com
The baby camel asked, “Why do camels have long legs and rounded feet?” To this, the mother said, “These are meant for walking in the hot desert. These long legs and rounded feet help the camels to walk in the desert better than anyone does!” The curious baby camel again asked, “Mother, why do we have long eyelashes? Sometimes it bothers my sight”. Mother Camel with pride replied, “My dear child, these long thick eyelashes are your protective cover. They help us to protect the eyes from the desert sand and wind”.

Baby Camel after thinking said, “Oh, I see. The hump helps us in storing water when we are in the desert, the legs are for walking through the desert and these eyelashes protect our eyes from the desert than what in god’s name are we doing here in the Zoo?” This time, the mother camel went speechless.



Sunday, April 16, 2023

The Turtle and the Bird story is a moral story

 


ا

یک دفعہ کا ذکر ہے۔ایک درخت کے نیچے کچھوا آرام کر رہا تھا، جس پر ایک پرندے نے اپنا گھونسلا بنا رکھا تھا۔ کچھوا طنزیہ انداز میں پرندے سے بولا، ’’تمہارا گھر کتنا خراب ہے! یہ ٹوٹی ہوئی ٹہنیوں سے بنا ہوا ہے، اس کی کوئی چھت نہیں ہے اور یہ خام نظر آتی ہے۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ آپ کو اسے خود بنانا پڑا۔

Friday, April 14, 2023

تسویر کا دوسرا رُخ

  




تصویر کا دوسرا رخ

ایک نوجوان عورت کو اپنی دادی سے ایک خوبصورت باغ ورثے میں ملا۔ اسے باغبانی بھی بہت پسند تھی اور اسے اپنے باغ پر بہت فخر تھا۔ ایک دن، اس نے کیٹلاگ میں ایک بہت ہی خوبصورت پودا دیکھا اور اسے اپنے باغ کے لیے چاہا۔ اس نے اسے آرڈر دیا اور اسے اپنے گھر کے پچھواڑے میں پتھر کی دیوار کی بنیاد پر لگایا۔ وہ اس پودے

Monday, April 10, 2023

دوست کون ہوتا ہے





دوست کون  ہوتا ہے

دوستی پر ایک خوبصورت کہا نی 
ایک ہاتھی کا کوئی دوست نہیں ہوتا اس کو اس لئے ایک دوست کی تلاش ہوتی ہے ۔جنگل میں جب وہ اپنا دوست ڈھونڈتا ہے تو  سب اس کو دست بنانے سے انکار کرتے ہیں لیکن جب اُن پر دوستی کی حقیقت کھلتی ہے تو  ایک دن سب اُس کے دوست بن جاتے ہیں ۔

Saturday, June 6, 2020

Folk tale of scotland Bena and her books بینا اور کتابیں ( اسکاٹ لینڈ کی لوک کہانی)

 

بینا اور کتابیں

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسکاٹ لینڈ کی ایک خوبصورت وادی میں ایک دس سال کی بچی بینا اپنے والدین کے ساتھ خوشی خوشی رہتی تھی ۔بینا کے والد قصبے کی مرکزی لائبریری میں لائبریرین تھے  ہر وقت کتابوں کے ساتھ رہنے کے باعث وہ  مطالعہ کا شوق رکھتے تھے اور اس بات سے باخوبی واقف تھےکہ کتاب نا صرف ایک بہترین ساتھی ہوتی ہے بلکہ

کتاب پڑھنے سے معلومات میں اٖضافہ بھی ہوتا ہے۔وہ یہی شوق اپنی لاڈلیبیٹی   میں بھی دیکھنا چاہتے تھے ۔  افسوس! بینا  کی سوچ اپنے والد کی سوچ سے یکسر مختلف تھی وہ کتاب پڑھنا تو درکنار کتابوں کی اپنے کمرے میں موجودگی کو بھی ناپسند کرتی تھی۔ اُس کو تو سہیلیوں کے ساتھ قریبی باغ کی سیر کرنا  اور اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ وقت کزارنا اچھا لگتا تھا ۔اس شوق کوپورا کرنے کے لئے اُس نے والد سے فرمائش کر کے اپنے لئے ایک  سیامی بلی، ایک السیشن کتا،چند طوطےاور مرغیاں پال رکھی تھیں

بینا کی سالگرہ قریب تھی اور والدین یہ سوچ رہے تھے کہ اس بار اس کو تحفے میں کیا دیں جو اس کے کام بھی آئے  ادھر بینا دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اس سالگرہ پر مجھے کھیلنے  کے لئے کونسا تحفہ ملے گا اسی سوچ میں دن تیزی سے گزر رہے تھے  اور پھر سالگرہ کا دن آن پہنچا

بینا صبح سے ہی بہت خوش تھی ۔ ارے میں یہ تو بتانا بھول گئی کہ بینا کیونکہ  اکلوتی اولاد تھی اس لئے لاڈ پیار کے باعث کچھ بدمزاج اور منہ پھٹ بھی تھی  ۔ اس کی یہ عادات  اُس  کےوالدین کے لئے تکلیف  دہ تھیں  وہ پوری کوشش کرتے لیکن بینا  ٹھیک ہونے میں ہی نہیں آتی تھی۔

خیر بات ہورہی تھی اُس کی سالگرہ کی تو بچو! شام کو  ابو بینا کی پسند کا کریم کیک لائے اور امی نے گھر پر کباب، پیزا، اور پاستا بنایا جو بینا کو ہمیشہ سے پسند تھا پانچ بجے جب بینا کی تمام سیلیاں آگئیں تو اُس

 

 نے کیک کاٹا اور سب سے تحفے قبول کئے پھر سب بچیوں نے خوب کھیلا  ۔جب سب سہیلیاں چلی گئیں تو بینا کو اپنے تحفوں کا خیال آیا

اُس نے باری باری سب کے تحفے کھولے کوئی دوست گڑیا لائی تو کوئی گڑیا نے ابو ،امی کا تحفہ کھولاکا گھر سب سے آخر میں بینا 

ارے یہ کیا!‘‘ ایمیزون کے جانور’’   بینا زور سے بولی  آپ نے مجھے تحفے میں یہ جانوروں کی معلومات سے متعلق کتاب کیوں دی۔اور ساتھ ہی بینا نے رونا شروع کردیا ۔  امی نے کہا بیٹا آپ کو کیونکہ جانوروں کا شوق ہے اس لئے ابو  یہ لائے امی ابو جتنا سمجھاتے وہ اتنا زور سے  روتی۔

آخر تنگ آکر  اُس کے والدین اُس کو روتا چھوڑ کر سونے چلے گئے

صبح بینا کی آنکھ دیر سے کھولی   کمرے سے باہر نکل کر دیکھا تو امی سبزی لینے بازار چلی گئیں تھیں  اور ابو   اپنی لائبریری۔

بینا واپس کمرے میں آگئی  اچانک اُس کی نظر اُس کتاب پر پڑی اُسے اتنا غصہ آیا کہ اُس نے کتاب کو اُٹھا کر زور سے زمین پر دے مارا  ۔ اس پر بھی

 

غصہ ختم نا ہوا تو اُس کے صفحے پھاڑنے لگی اور پھر  بیٹھ کر منہ پر ہاتھ رکھ 

اچانک  اُسے چند آوازوں نے نے اپنی طرف متوجہ کیا لگتا تھا جیسے اُسکے قریب بندر  بطخ اور طوطے بول رہے ہیں بینا نے منہ پر سے ہاتھ ہٹا کر

دیکھا ہیں یہ کیا!

بینا کے کمرے میں مختلف جانور پھر رہے تھے جیسے اُس کا کمرہ ناہو جنگل ہو

بینا نے زور زور سے چلانا شروع کردیا ۔لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس کی آواز  اُن  جانوروں کو سنائی ہی نہیں دے رہی  بینا کبھی بندر سے بچتی تو کبھی اُلو سے

اچانک اُس کا پاوں کتاب سے ٹکرایا اور  ٹکرانے سے ایک اور صفحہ پھٹ گیا ۔

بینا   نے دیکھا  ایک پیاری سی تتلی جو اُس ٖصفحے پر بنی ہوئی تھی صفحہ پھٹتے ہی تصویر سے نکل کر کمرے میں اُڑنے لگی  اُس کو یقین نہیں آرہا تھا   کہ وہ ایمیزون کے جانوروں کے بیچ میں ہے ۔   غیر ارادی طور پر بینا نے تتلی والا صفحہ اُٹھایا  اور  تتلی کے بارے میں جاننے کے شوق میں اُسے پڑھنے لگی جیسے ہی وہ اُونچی آواز سے پڑھنا شروع ہوئی تتلی اُس کے قریب آگئی بینا نے ڈر کر صفحہ کتاب میں واپس رکھ دیا تو تتلی جا کر دوبارہ اپنی تصویر میں بیٹھ گئی ۔ بینا کو جانوروں کو دوبارہ واپس بھیجنے کا طریقہ پتا چل گیا تھا اُس نے باری باری  ایک ایک پھٹے ہوئے صفحے کو پڑھنا شروع کیا جیسے ہی وہ بلند آواز سے پڑھتی اُس صفحے کا جانور قریب آجاتا  تو وہ آہستہ سے اُسے کتاب میں واپس رکھ دیتی اس طرح وہ جانور اپنی تصویر پر جا بیٹھتا۔بینا نت باری باری تمام پھٹے ہوئے صفحوں کو پڑھا اور جانوروں کو کتانب میں واپس بلایا  ایسا کرتے

کرتے ناجانے کب اُس کی انکھ لگی اور وہ سو گئی ۔

امی بازار سے واپس آئیں تو بینا کو دیکھا جو تحفے والی کتاب قریب رکھے سورہی تھی امی مطمعن  ہوگئیں اور یہ سوچتے ہوئے کام کرنے لگیں کہ آخر بینا کو کتاب پسند آہی گئی

 بچو! آپ بھی اب کتابوں سے دوستی کرہی لینی چاہیے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

English  Translation 

 Bina and books
Bina, a ten-year-old girl, once lived happily with her parents in a beautiful valley in Scotland. Bina's father was a librarian at the town's main library. He was well aware of the fact that a book is not only a great companion but also adds to the knowledge by reading a book. He also wanted to see the same passion in his beloved daughter Bina.
Sorry! Bina's thinking was completely different from her father's thinking. She disliked reading books as well as the presence of books in her room. He loved to walk in the nearby garden with his friends and spend time with his pets. To fulfill this hobby, he asked his father for a Siamese cat, a seasoning dog, a few parrots and chickens. Kept
Bina's birthday was approaching and her parents were wondering what to give her this time as a gift that would help her. The days were passing fast and then the birthday came
Bina was very happy since morning. Hey, I forgot to mention that because Bina was the only child, there was some bad temper and open mouth due to pampering. These habits were painful for his parents. They tried their best but Bina did not recover.
Talk about rubbing salt in my wounds - d'oh! In the evening, Abu Bina brought a cream cake of his choice and my mother made kebabs, pizza, and pasta at home, which Bina had always liked. The girls played well. When all the friends left, Bina thought of her gifts
He took turns opening everyone's gifts. A friend brought a doll and a doll's house. Finally, Bina opened Abu's and Amy's gifts.
"Hey, what's this?" "Animals of the Amazon." Bina said loudly. "Why did you give me this book about animal information as a gift?" My mother said, "Son, because you are fond of animals, Abu brought it." She cried as loudly as she could.
Eventually, her parents left her crying and went to bed
When Bina opened her eyes late in the morning and came out of the room, she saw that my mother had gone to the market to buy vegetables and father had gone to his library.
Bina came back into the room. Suddenly her eyes fell on the book. She became so angry that she picked up the book and threw it on the ground. Even Super got angry and started tearing her page and then sat down and put her hand on her mouth and started crying loudly.
Suddenly he was attracted by a few voices, as if monkeys, ducks and parrots were talking near him. Bina removed her hand from her mouth and saw what it was!
Different animals were roaming in Bina's room as if her room was  forest
Bina started screaming loudly. But it seemed as if her voice was not being heard by those animals. Bina sometimes escaped from the monkey and sometimes from the owl.
Suddenly his foot hit the book and another page burst.
Bina saw a cute little butterfly on the page. As soon as the page opened, she jumped out of the picture and flew into the room. She couldn't believe that she was among the animals of the Amazon. Involuntarily, Bina picked up the page with the butterfly and began to read it out of curiosity about the butterfly. As soon as she started reading aloud, the butterfly approached her. She sat down in her picture again. Bina knew how to send the animals back. She began to read the torn pages one by one. As she read aloud, the animal on that page approached. She would gently put it back in the book. The animal would go and sit on his picture. Bina Nat read all the torn pages one by one and called the animals back to the books.
When my mother came back from the bazaar, she saw Bina holding a gift book nearby. She was disappointed and started working thinking that finally Bina liked the book.
 Beware! You too should make friends with books now.
   

Tuesday, May 19, 2020

Folk tale of South Africa the man and the snake


آدمی اور سانپ
The Snake and the Stone 

ایک  دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بار ایک آدمی جو  جنگل کے قریب سے گزر رہا تھا ۔ جنگل خوب ہرا بھرا  تھا  اور گزرتے  ہوئے اُسے مسلسل پرندوں  اور جانوروں کی آوازیں آرہی تھیں ۔ اچانک چلتے ہوئے اُسے ایک آواز  آئی مجھے  نکالو ۔۔۔۔
 میری مدد کرو  نہیں تو میں مر جاوں گا  ۔آدمی نے اپنے اردگرد تلاش کیا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے تو پتا چلا کہ ایک پتھر کے نیچے سے آواز آرہی تھی۔اور پتھر کے نیچے ایک سانپ تھا جو مدد کے لئے پُکار رہا تھا ۔وہ  پتھر کے نیچے بُری طرح پھنس گیا تھا۔ آدمی کو اُس پر ترس آگیا چنانچہ اُس نے وہ پتھر دونوں ہاتھوں کی مدد سے اور خوب زور لگا کر ہٹا دیا لیکن سانپ جیسے ہی باہر نکلا اُس نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر آدمی کو ڈسنے کے لئے اپنی زبان باہر نکالی۔
ٹھرو!‘‘ آدمی نے کہا میں نے تو تمھاری مدد کی تھی تم اُ س کا بدلہ مجھے ڈسنے  کی صورت میں دو گے’’۔ 
سانپ بولا یہ میری عادت میں شامل  ہےکہ  ڈسوںآدمی عقل مند تھا سوچ کر بولا ! چلو کسی عقل مند سے اس  کا فیصلہ کروا لیتے ہیں۔

کیونکہ  جہاں وہ کھڑے تھے کوئی  انسان  قریب نا تھا اس لئے آدمی سے سانپ کو کا کہ یہ فیصلہ میں تم پر چھوڑتا ہوں کہ کس سے پوچھا جائے سانپ دل ہی دل میں خوش ہوا    اور  کہا ٹھیک ہے۔چلو اُلو کے پاس چلتے ہیں وہ ایک عقل مند پرندہ  ہے ۔ (سانپ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ فیصلہ میرے ہی حق میں ہو گا کیونکہ  میں اور االوّ  دونوں جنگل کے باسی اور ہم وطن ہیں۔ چنانچہ سانپ آدمی کو لے کر الوّ کے پاس پہنچا۔
آدمی نے   الوّ کے سامنے اپنا اور سانپ کا  مقدمہ پیش کیا اور کہا کہ
کیا سانپ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مجھے کاٹے ، حالانکہ میں نے وہی پتھر اُٹھایا تھا  
جو اس کے اوپر تھا  اور یہ اس کے نیچے سے ہل بھی نہیں سکتا تھا
مجھے یقین نہیں آرہا کہ سانپ کسی پتھر کے نیچے آجائے اور نکل نا سکے مجھے یہ فیصلہ کرنے کے لئے اُس جگہ جانا ہوگا جہاں یہ واقعہ ہوا تبھی میں درست فیصلہ دے سکتا ہوں۔ الوّ بولا
اب وہ اُس جگہ پہنچ گئے جہاں یہ واقع ہوا تھا ۔
’’تم  اس جگہ لیٹ جاو جہاں  پتھر پڑا تھا ‘‘ گیدڑ نے سانپ کو کہا ۔ اور تم  اس پر وہی پتھر رکھ دو جو تم نے سانپ پر سے اُٹھا یا تھا‘‘۔ گیدڑ نے آدمی کو کہا ۔
سانپ پہلے تو ہچکچایا لیکن پھر ایسا ہی کیا جیسا   اُسے کہا گیا تھا ۔آدمی نے بھی  اُس پر دوبارہ پتھر رکھ دیا ۔ سانپ نے اگرچہ پتھر سے نکلنے کی بہت کوشش کی بہت بل کھائے ۔ تمام حربے استعمال کئے لیکن نہ نکل سکا۔ ادمی اُس  پتھر نکالنے کے بڑھا  لیکن  الوّ  نے  مداخلت کی اور بولا ’’ پتھر کو  ہرگز  نہ  ہٹاو!۔یہ تمھیں کاٹنا چاہتا تھا،لہٰذا اب اسے خود پتھر سے نکلنا چاہیے۔ الوّ  یہ کہ کر اُڑ گیا اور آدمی نے اپنی راہ لی۔ 
.................................................................................................In  English Translation  
Man and snake

Once upon a time there was a man who was passing near the forest. The forest was very green and the sounds of birds and animals kept coming to him. Suddenly a voice came to him while walking. Get me out ...
 If you don't help me, I will die. The man looked around to see where the sound was coming from and found a sound coming from under a rock. And under the rock there was a snake calling for help. He was badly trapped under a rock. The man felt sorry for him so he removed the stone with the help of both hands and with great force but as soon as the snake came out he was forced out of his habit and stuck out his tongue to bite the man.
"Wait!" The man said, "I helped you. You will repay me if I get bitten."
The snake said it is part of my habit. Let's get someone wise to decide.
Because no one was near where they were standing, so the man asked the snake to leave it to you to decide who to ask. The snake was happy in his heart and said ok. Let's go to the owl. The wise bird. (The snake was thinking in its heart that the decision would be in my favor because I and both are forest dwellers and compatriots. So the snake took the man and reached owl.
The man presented his case to owl  , and said ''Does the snake have the right to bite me, even though I picked up the same stone''?
''Which was above it and it could not move from under it
I can't believe the snake came under a rock and couldn't get out. I have to go to the place where this happened and I can make the right decision. '' owl said
Now they came to the place where it happened.
"Lie down where the rock was," said the fox to the snake. And you put on it the same stone that you picked up from the snake. ” The owl said to the man.
The snake hesitated at first but then did as he was told. The man also put a stone on it again. The snake, though trying hard to get out of the rock, ate a lot. Tried all tactics but couldn't get out. The man rushed to remove the stone, but the owl intervened and said, "Never remove the stone! It wanted to cut you, so get it out of the stone yourself."
Than owl flew away and the man went on his way.
  

Thursday, May 14, 2020

SHASHEBO AND SEAGULL ( ITALIAN STORY)


 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان باورچی تھا۔ جس کا نام شکیبو تھا ۔ وہ  ایک ذہین باورچی تھا  ۔  وہ ہمیشہ اشھے موڈ   میں  لرہتا  لوگوں سے مذاق کرنے میں اُسے بہت مزا آتا تھا۔ ایک روز اُس کا مالک ایک سیگل   یعنی ایک بگلہ  پکانے کے ٓلئے لایا اور باورچی کو دیا
مالک بولا کہ  آج شام کھانے پر ایک بہت ہی ام مہمان آرہے ہیں  اس لئے اس کو بہت ہی اچھا پکانا  شیکسیبو  بولا’کیوں نہیں جناب سب انگلیاں چاٹیں گے اگلے روز اُس نے  اُس سیگل کو پکا لیا تو سالن کی مہک نے اُسے مسحور کر لیا  اور وہ اُسے چکھے بغیر نا رہ سکا۔ 
اُس نے سیگل کی ایک ٹانگ اُٹھائی اور دروازے میں چھپ کر کھا لی۔ اس کے بعد باقی کا سالن لے کر کھانے کے کمرے میں چلا گیا اور کھانے کی میز پر رکھ دیا
کھان ے کے بعد مالک باورچی خانے میں آیا اور باورچی سے پوچھا  کہ  سی گل کی صرف ایک ہی ٹانگ کیوں تھی
شکیبو نے  جواب دیا جناب  سی گل کی  ایک ہی ٹانگ ہوتی ہے اگر یقین نہیں آتا تو سمندر پر جا کر دیکھ لیں  کہ وہ جھوٹ نیہں بول رہا 
جب وہ دونوں سمندر کے کنارے پہنچے تو وہاں کئی مُرغابیاں نظر آئیں جو ایک ٹانگ پر کھڑی تھیں
شکیبو نے بڑے اطمینان سے مالک کو کہا   اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں  مُرغابیوں کی تو  بس ایک ہی ٹانگ ہے۔ 
مالک نے کوئی جواب نا دیا اور ایک زور کی تالی بجائی

جس پر تمام مرغابیوں نے اپنی دوسری ٹانگ بھی زمین پر رکھی اور اُڑنے کو تیار ہو گئیں ۔
مالک نے کہا دیکھ لو تم نے صیحیح نہیں کہا تھا
آپ ایسا ہرگز نہیں کہہ سکتے ،شکیبو بولا
‘‘کیونکہ آپ نے کھانے کی میز پر تالی بجائی ہی نہیں تھی’’اب مالک ناراض نہیں تھا ۔ وہ ہنسا اور اُس نے شکیبو کو معاف 
کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
English Translation

Once upon a time there was a young cook. His name was Shakib. He was an intelligent cook. He was always in the mood to make fun of people. One day her owner brought a seagull for cooking and gave it to the cook

The owner said that a very good guest is coming to dinner this evening, so he cooked it very well. And he could not live without tasting it.

He picked up one of seagull's legs and hid in the doorway. Then he took the rest of the curry and went to the dining room and put it on the dining table

After dinner, the owner came into the kitchen and asked the cook why seagull had only one leg.

Shakibo replied, "Mr.seagull l has only one leg. If you can't believe it, go to the sea and see if he's lying."

When they reached the shore, they saw several ducks standing on one leg

Shakibu said to the owner with great satisfaction, "Look with your own eyes, the ducks have only one leg."

The owner did not answer and gave a loud applause

On which all the ducks put their other leg on the ground and got ready to fly.

The master said, "Look, you did not say the right thing."

You can't say that at all, Shakibo said

"Because you didn't even clap at the dinner table."

The owner was no longer angry. He laughed and forgave Shakib.

گلاب کی جھاڑی folk tale of Nederland MAY 2020

  ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک غیر آباد مکان میں ایک سرغ گلاب کے پھولوں کی جھاڑی تھی۔ وہ وہاں بس ایک ہی پودا تھا ۔ وہ  تھی اور خاموشی اس لئے وہ بہت آداس رہتی 

ایک روز  صبح کے وقت اچانک اپس نے ایک آواز سنی 
ٹپ،ٹپ ٹپ  وہ حیران ہوئی کی آج آواز کہاں سے آئی آس نے خوشی کو دباتے ہوئے پوچھا 
کون ہے؟
‘‘میں بارش ہوں اور میں اندر آنا چاہتی ہوںا’’  
ایک ہلکی سی آواز آئی ۔ نہیں تم نہیں آسکتیں 
 مجھے آنے دو میں آوں گی تو  میرے برسنے سے تمہارے ارد گرد بہت سے اور پھول بھی کیل جائیں گے
 اب گلاب کی جھاڑی سوچنے لگی کہ اگر میں بارش کو آنے دوں گی تو کیا سچ مچ یہاں رونق ہو جائے گی  
اتنی دیر مین ایک اور آواز آئی 
صرصر     صرصر 
یہ کون ہے؟ اس نے پوچھا میں ہوا ہوں اور میرے ساتھ سورج بھائی بھی ہیں  ہم آئیں گے تو تمہارے   گھر میں آجالا ہوجائے گا اور اس گھر میں زندگ دوڑ جائے گی ۔گلاب کی گھاڑی اب سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ان کو اندر بلانے  میں کوئی حرج نہیں چنانچہ آس نے دروازہ کھول دیا 
جیسے ہی تینوں اندر آئے  آس گھر میں تو جیسے رونق آگئی بارش برسی سورج نکلا اور ہوا چلی کچھ ہی دنوں میں وہ گھر ایک باغ کا منظر پیش کرنے لگا
اگر ہم بھی اپنے دل کے دروازے نیکیوں کے لئے کھول دیں تو ہمارا دل جو اُس ویران گھر  میں  اُس گلاب کے پھول کی مانند تھا   خوشیوں سے بھر 
جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
English Translation 

 Once upon a time, there was a bush of roses in an uninhabited house. There was only one plant. She was and the silence so she was very sad

One morning, all of a sudden, I heard a voice

Tip, tip tip, she wondered where the voice came from today, Aas asked suppressing happiness

who is?

"I'm raining and I want to come in."

There was a faint sound. No you can't

 Let me come, I will come, and my rain will make many more flowers around you

 Now the rose bushes began to wonder if I would let the rain come, would it really flourish here?

Just then another voice came

صرصر صرصر

Who is this? He asked, "I am here and I have Suraj Bhai with me. If we come, there will be light in your house and life will run in this house. Rose's cart is now forced to think that there is no harm in inviting them inside." So Aas opened the door

As soon as the three of them entered the house, as soon as the house was flooded, the sun came out and the wind blew. In a few days, the house began to look like a garden.

If we, too, open the doors of our hearts to good deeds, our hearts will be filled with joy like that rose in that desolate house.

The Camel and her son kids story اُونٹ اور اس کا بچہ

  اُونٹ اور اس کا بچہ ایک دن ایک اونٹ اور اس کا بچہ گپ شپ کر رہے تھے۔ بچے نے پوچھا، "ماں، ہمارے کوہان کیوں ہیں؟" ماں نے جواب دیا، ...